ہر روز ہی دن بھر کے جھمیلوں سے نمٹ کے
رو لیتے ہیں ہم رات کے آنچل سے لپٹ کے
ہم کون ہیں کیوں بیٹھے ہیں یوں راہ گزر پر
پوچھا نہ کسی اک بھی مسافر نے پلٹ کے
کیا کیا تھے مرے دل کے صحیفے میں مضامیں
دیکھے نہ کسی نے مرے اوراق الٹ کے
پھرتے رہے آوارہ خیالات کی صورت
کیا چیز تھی ہم جس کے لیے دہر میں بھٹکے
شب کروٹیں لیتے تو نہ گزرے کبھی منذرؔ
سو جاؤ میاں درد کی باہوں میں سمٹ کے
غزل
ہر روز ہی دن بھر کے جھمیلوں سے نمٹ کے
بشیر منذر