ہر رستہ پر بہار ہوا ہے ابھی ابھی
دل دل کا رازدار ہوا ہے ابھی ابھی
دامن کی دھجیوں کو ستاروں سے باندھ کر
کوئی فلک کے پار ہوا ہے ابھی ابھی
اس کو پتا نہیں ہے خزاں کے مزاج کا
وہ واقف بہار ہوا ہے ابھی ابھی
عشق بشر سے عشق خدا معتبر ہوا
یہ نکتہ آشکار ہوا ہے ابھی ابھی
اشکوں میں تیر اٹھی لہو کی لکیر سی
دل پر نظر کا وار ہوا ہے ابھی ابھی
آ جا خدا کے واسطے آ جا نہ دیر کر
دل میرا وا گزار ہوا ہے ابھی ابھی
موجوں کی سینہ کوبی بتاتی ہے برملا
دریا کے کوئی پار ہوا ہے ابھی ابھی
اس پر لکھی تھی جان محبت کی داستاں
دامن جو تار تار ہوا ہے ابھی ابھی
غزل
ہر رستہ پر بہار ہوا ہے ابھی ابھی
جان کاشمیری