ہر رسم پر نظر کو جھکاتے ہوئے چلے
ہر اختیار اپنا مٹاتے ہوئے چلے
کچھ ان پہ اعتماد ہے کچھ اپنی ذات پر
زعم فریب یوں ہی نبھاتے ہوئے چلے
کتنی حکایتیں کہ زباں تک نہ آ سکیں
زنجیر حرف ان پہ سجاتے ہوئے چلے
ان کے مذاق دید سے پائی نہ پائی داد
پھر بھی حریم شوق بساتے ہوئے چلے
جو راہ جل گئی تھی حقیقت کی آنچ سے
خوابوں کے پھول اس پہ بچھاتے ہوئے چلے
غزل
ہر رسم پر نظر کو جھکاتے ہوئے چلے
طلعت اشارت