ہر رہ گزر میں کاہکشاں چھوڑ جاؤں گا
زندہ ہوں زندگی کے نشاں چھوڑ جاؤں گا
میں بھی تو آزماؤں گا اس کے خلوص کو
اس کے لبوں پہ اپنی فغاں چھوڑ جاؤں گا
میری طرح اسے بھی کوئی جستجو رہے
از راہ احتیاط گماں چھوڑ جاؤں گا
میرا بھی اور کوئی نہیں ہے ترے سوا
اے شام غم تجھے میں کہاں چھوڑ جاؤں گا
روشن رہوں گا بن کے میں اک شعلۂ نوا
صحرا کے آس پاس اذاں چھوڑ جاؤں گا
پھر آ کے بس گئے ہیں برابر کے گھر میں لوگ
اب پھر امیرؔ میں یہ مکاں چھوڑ جاؤں گا
غزل
ہر رہ گزر میں کاہکشاں چھوڑ جاؤں گا
امیر قزلباش