EN हिंदी
ہر رہ گزر میں کاہکشاں چھوڑ جاؤں گا | شیح شیری
har rahguzar mein kahkashan chhoD jaunga

غزل

ہر رہ گزر میں کاہکشاں چھوڑ جاؤں گا

امیر قزلباش

;

ہر رہ گزر میں کاہکشاں چھوڑ جاؤں گا
زندہ ہوں زندگی کے نشاں چھوڑ جاؤں گا

میں بھی تو آزماؤں گا اس کے خلوص کو
اس کے لبوں پہ اپنی فغاں چھوڑ جاؤں گا

میری طرح اسے بھی کوئی جستجو رہے
از راہ احتیاط گماں چھوڑ جاؤں گا

میرا بھی اور کوئی نہیں ہے ترے سوا
اے شام غم تجھے میں کہاں چھوڑ جاؤں گا

روشن رہوں گا بن کے میں اک شعلۂ نوا
صحرا کے آس پاس اذاں چھوڑ جاؤں گا

پھر آ کے بس گئے ہیں برابر کے گھر میں لوگ
اب پھر امیرؔ میں یہ مکاں چھوڑ جاؤں گا