ہر راحت جاں لمحے سے افتاد کی ضد ہے
بیداد زمانہ بھی کسی داد کی ضد ہے
ہر خیر کسی شر سے بقا یاب ہوئی ہے
یہ حسن تعادل بھی تو اضداد کی ضد ہے
اب آنکھیں بھلا کس طرح تقسیم کرے ماں
دیواریں کھڑی کرنا تو اولاد کی ضد ہے
گریہ نہیں معقول بیاد کس رفتہ
لیکن یہ تماشا دل ناشاد کی ضد ہے
میں راستہ بھولا ہوا پیادہ ہوں مجھے کیا
رہبر کو اگر جادۂ برباد کی ضد ہے
میں خود سے نبھانے کا روادار نہیں تھا
یہ پہلی محبت مرے ہم زاد کی ضد ہے
ہیں فکر کے آثار خداؤں کی جبیں پر
اک ابد زیاں کار کو الحاد کی ضد ہے

غزل
ہر راحت جاں لمحے سے افتاد کی ضد ہے
اکرام اعظم