ہر قدم پر مجھے لغزش کا گماں ہوتا ہے
چشم ساقی کی نوازش کا گماں ہوتا ہے
یہ حجابات تعین مجھے منظور نہیں
فکر آزاد کو بندش کا گماں ہوتا ہے
لطف پیہم نہ سہی جور مسلسل ہی سہی
ہر توجہ پہ نوازش کا گماں ہوتا ہے
ان کے آگے لب اظہار پہ ہے مہر سکوت
ایک خاموش پرستش کا گماں ہوتا ہے
میں قفس میں ہوں قفس پیش نگاہ صیاد
پر پرواز میں جنبش کا گماں ہوتا ہے
صرف تم دل کی تباہی کا سبب کیا ہوتے
بخت ناساز کی سازش کا گماں ہوتا ہے
بات یہ کیا ہے عروجؔ ان کی ہر اک بات میں آج
اپنی ہر طرز گزارش کا گماں ہوتا ہے
غزل
ہر قدم پر مجھے لغزش کا گماں ہوتا ہے
عروج زیدی بدایونی