ہر قدم خوف ہے دہشت ہے ریاکاری ہے
روشنی میں بھی اندھیروں کا سفر جاری ہے
طاقت کفر نے کہرام مچا رکھا ہے
جانے کس کس کو مٹانے کی یہ تیاری ہے
مل کے سب قہر بپا کرتے ہیں انسانوں پر
ہے جنوں ذہن میں اور آنکھ میں چنگاری ہے
اپنے انداز سے ایک ساتھ یہاں پر رہنا
یہ ہماری ہی نہیں تیری بھی لاچاری ہے
ہو غریب اور امیر چاہے ہو بوڑھا بچہ
کون ہے اپنی جسے جان نہیں پیاری ہے
ہم نے ہر عہد میں رکھا ہے بھرم تیرا جب
تو ہی اے وقت بتا کیا یہ وفاداری ہے
اس کو دنیا میں کوئی آنکھ دکھا سکتا ہے کیا
رشکؔ جس قوم میں احساس ہے بیداری ہے

غزل
ہر قدم خوف ہے دہشت ہے ریاکاری ہے
فیاض رشک