ہر پری وش کو خدا تسلیم کر لیتا ہوں میں
کتنا سودائی ہوں کیا تسلیم کر لیتا ہوں میں
مے چھٹی پر گاہے گاہے اب بھی بہر احترام
دعوت آب و ہوا تسلیم کر لیتا ہوں میں
بے وفا میں نے محبت سے کہا تھا آپ کو
لیجیے اب با وفا تسلیم کر لیتا ہوں میں
جو اندھیرا تیری زلفوں کی طرح شاداب ہو
اس اندھیرے کو ضیا تسلیم کر لیتا ہوں میں
جرم تو کوئی نہیں سرزد ہوا مجھ سے حضور
باوجود اس کے سزا تسلیم کر لیتا ہوں میں
جب بغیر اس کے نہ ہوتی ہو خلاصی اے عدمؔ
رہزنوں کو رہنما تسلیم کر لیتا ہوں میں
غزل
ہر پری وش کو خدا تسلیم کر لیتا ہوں میں
عبد الحمید عدم