ہر نظر میں ہے اثاثہ اپنا
چاک در چاک ہے خیمہ اپنا
کوئی پرتو ہے نہ سایہ اس کا
جس کے ہونے سے ہے ہونا اپنا
کس کی لو راہ سحر دیکھے گی
شام کی شام ہے شعلہ اپنا
لپٹے جاتے ہیں کناروں سے بھی
اور دریا پہ بھی دعویٰ اپنا
چھوڑ بیٹھے ہیں فقیری لیکن
ابھی توڑا نہیں کاسہ اپنا
در خسرو پہ چلا ہے فرہاد
رہن رکھ آئے نہ تیشہ اپنا
کن گمانوں میں گھرے ہو یوسفؔ
کبھی دیکھو تو سراپا اپنا

غزل
ہر نظر میں ہے اثاثہ اپنا
یوسف حسن