ہر نقش ہوا ہو کے بکھر جائے گا آخر
خالدؔ ترا احساس بھی مر جائے گا آخر
مٹ جائے گا خواہش کا نشاں موت کے ہاتھوں
یہ سانپ بھی سینے سے اتر جائے گا آخر
دن جس کے لئے رات بڑے کرب میں کاٹی
سایوں کے تعاقب میں گزر جائے گا آخر
میں خوف ہوں بیٹھا ہوں کمیں گاہ فنا میں
تو بچ کے مری زد سے کدھر جائے گا آخر
جو سائے کے مانند رواں ہے مرے ہم راہ
وہ شخص بھی تنہا مجھے کر جائے گا آخر

غزل
ہر نقش ہوا ہو کے بکھر جائے گا آخر
خالد شیرازی