ہر نفس وقف آرزو کر کے
کچھ بھی پایا نہ جستجو کر کے
سو شگوفے کھلا دیئے دل میں
خندۂ گل سے گفتگو کر کے
مسکراتا ہی کیوں نہ رہنے دو
فائدہ چاک دل رفو کر کے
کتنے نو خیز و نو دمیدہ پھول
مر مٹے خواہش نمو کر کے
غیرت دل نے آہ سوزاں کو
رکھ دیا سرمۂ گلو کر کے
غزل
ہر نفس وقف آرزو کر کے
عرفانہ عزیز