EN हिंदी
ہر نفس اک نئی زنجیر مجھے ملتی ہے | شیح شیری
har nafas ek nai zanjir mujhe milti hai

غزل

ہر نفس اک نئی زنجیر مجھے ملتی ہے

جمال اویسی

;

ہر نفس اک نئی زنجیر مجھے ملتی ہے
جینا پڑتا ہے مجھے ہیر مجھے ملتی ہے

بھاگتا رہتا ہوں پرچھائیوں کی یورش سے
ہر جگہ اپنی ہی تصویر مجھے ملتی ہے

بے نوائی میں مرے دل کو سکوں ہے کتنا
چین سے جینے کی جاگیر مجھے ملتی ہے

میں نے دیکھا تھا کبھی سایوں کے ٹکراؤ کا خواب
آج اس خواب کی تعبیر مجھے ملتی ہے

کوئی لوٹاتا ہے بھیجا ہوا تحفہ مجھ کو
پیار کے بدلے میں تحقیر مجھے ملتی ہے