ہر لحظہ مری زیست مجھے بار گراں ہے
وہ میرا لہو ہے کہ مرا دشمن جاں ہے
اس دور میں جینے کی سزا کاٹ رہا ہوں
ہر سانس کی رفتار میں احساس زیاں ہے
اڑ جاتے ہیں شاخوں سے سحر ہوتے ہی طائر
بس رین بسیرا ہے یہاں جو بھی مکاں ہے
دونوں ہی جنوں خیزی کے طوفاں میں گرفتار
تہذیب عبادت نہ یہاں ہے نہ وہاں ہے
رشتے سبھی زنجیر ضرورت سے جڑے تھے
اب کون یہ پوچھے کہ تقیؔ ہے تو کہاں ہے
غزل
ہر لحظہ مری زیست مجھے بار گراں ہے
یوسف تقی