EN हिंदी
ہر لغزش حیات پر اترا رہا ہوں میں | شیح شیری
har laghzish-e-hayat par itra raha hun main

غزل

ہر لغزش حیات پر اترا رہا ہوں میں

سراج لکھنوی

;

ہر لغزش حیات پر اترا رہا ہوں میں
اور بے گناہیوں کی قسم کھا رہا ہوں میں

ناز آفریں مرا بھی خرام نیاز دیکھ
محشر میں مسکراتا ہوا آ رہا ہوں میں

ہر اشک‌ دل گداز مے نو کشیدہ ہے
ساغر سے شعلہ بن کے اڑا جا رہا ہوں میں

ضرب‌ المثل ہیں اب مری مشکل پسندیاں
سلجھا کے ہر گرہ کو پھر الجھا رہا ہوں میں

چلتا ہے ساتھ ساتھ زمانے کے کیا کروں
رخ پر ہوا کے بہتا چلا جا رہا ہوں میں

سب رشتے اب تو ٹوٹ چکے صبر و ضبط کے
انگڑائیوں کو روک اڑا جا رہا ہوں میں

ہاتھوں سے چھوٹنے کو ہے اب دل کا آئنہ
تم تو سنور رہے ہو مٹا جا رہا ہوں میں

کیا فائدہ زمانے سے ٹکراؤں کیوں سراجؔ
خود اپنے راستے سے ہٹا جا رہا ہوں میں