ہر لغزش حیات پر اترا رہا ہوں میں
اور بے گناہیوں کی قسم کھا رہا ہوں میں
ناز آفریں مرا بھی خرام نیاز دیکھ
محشر میں مسکراتا ہوا آ رہا ہوں میں
ہر اشک دل گداز مے نو کشیدہ ہے
ساغر سے شعلہ بن کے اڑا جا رہا ہوں میں
ضرب المثل ہیں اب مری مشکل پسندیاں
سلجھا کے ہر گرہ کو پھر الجھا رہا ہوں میں
چلتا ہے ساتھ ساتھ زمانے کے کیا کروں
رخ پر ہوا کے بہتا چلا جا رہا ہوں میں
سب رشتے اب تو ٹوٹ چکے صبر و ضبط کے
انگڑائیوں کو روک اڑا جا رہا ہوں میں
ہاتھوں سے چھوٹنے کو ہے اب دل کا آئنہ
تم تو سنور رہے ہو مٹا جا رہا ہوں میں
کیا فائدہ زمانے سے ٹکراؤں کیوں سراجؔ
خود اپنے راستے سے ہٹا جا رہا ہوں میں
غزل
ہر لغزش حیات پر اترا رہا ہوں میں
سراج لکھنوی