ہر کوئی اس کا خریدار ہوا چاہتا ہے
گرم پھر حسن کا بازار ہوا چاہتا ہے
دیکھ لینا غم معشوق میں کڑھتے کڑھتے
کچھ نہ کچھ اب مجھے آزار ہوا چاہتا ہے
آنکھ للچائی ہوئی پڑتی ہے جس پر میری
عشق اس پر مرا اظہار ہوا چاہتا ہے
کہہ دو اس پردہ نشیں سے تری خاطر کوئی
آج رسوا سر بازار ہوا چاہتا ہے
پان کھا کھا کے لب بام پہ وہ آنے لگا
خوں ہمارا پس دیوار ہوا چاہتا ہے
کوچۂ یار میں جاتا ہے عبث تو غافلؔ
کیوں مصیبت میں گرفتار ہوا چاہتا ہے
غزل
ہر کوئی اس کا خریدار ہوا چاہتا ہے
منور خان غافل