ہر کوئی طرۂ پیچاک پہن کر نکلا
ایک میں پیرہن خاک پہن کر نکلا
اور پھر سب نے یہ دیکھا کہ اسی مقتل سے
میرا قاتل مری پوشاک پہن کر نکلا
ایک بندہ تھا کہ اوڑھے تھا خدائی ساری
اک ستارہ تھا کہ افلاک پہن کر نکلا
ایسی نفرت تھی کہ اس شہر کو جب آگ لگی
ہر بگولہ خس و خاشاک پہن کر نکلا
ترکش و دام عبث لے کے چلا ہے صیاد
جو بھی نخچیر ہے فتراک پہن کر نکلا
اس کے قامت سے اسے جان گئے لوگ فرازؔ
جو لبادہ بھی وہ چالاک پہن کر نکلا

غزل
ہر کوئی طرۂ پیچاک پہن کر نکلا
احمد فراز