EN हिंदी
ہر کوئی ملتا ہے بن کر دیوار | شیح شیری
har koi milta hai ban kar diwar

غزل

ہر کوئی ملتا ہے بن کر دیوار

خاقان خاور

;

ہر کوئی ملتا ہے بن کر دیوار
ٹوٹ جائے گی مگر ہر دیوار

میں بھی تقسیم نہ ہو جاؤں کہیں
اٹھ رہی ہے مرے اندر دیوار

ہر بلا سیدھی چلی آتی ہے
کوئی ہوتی مرے باہر دیوار

چھوڑ کر جاؤں کہاں بچوں کو
اب تو ہے میرے لیے گھر دیوار

دھوپ سے ہم کو بچانے کے لیے
روز پھیلاتی رہے پر دیوار

پھر جزیرے نہ ملے آپس میں
راستے میں ہے سمندر دیوار

میں سناتا رہا دکھڑے خاورؔ
اور روتی رہی شب بھر دیوار