ہر کوئی ملتا ہے بن کر دیوار
ٹوٹ جائے گی مگر ہر دیوار
میں بھی تقسیم نہ ہو جاؤں کہیں
اٹھ رہی ہے مرے اندر دیوار
ہر بلا سیدھی چلی آتی ہے
کوئی ہوتی مرے باہر دیوار
چھوڑ کر جاؤں کہاں بچوں کو
اب تو ہے میرے لیے گھر دیوار
دھوپ سے ہم کو بچانے کے لیے
روز پھیلاتی رہے پر دیوار
پھر جزیرے نہ ملے آپس میں
راستے میں ہے سمندر دیوار
میں سناتا رہا دکھڑے خاورؔ
اور روتی رہی شب بھر دیوار
غزل
ہر کوئی ملتا ہے بن کر دیوار
خاقان خاور