EN हिंदी
ہر کسی سے نہ احتراز کرو | شیح شیری
har kisi se na ehtiraaz karo

غزل

ہر کسی سے نہ احتراز کرو

جیمنی سرشار

;

ہر کسی سے نہ احتراز کرو
دوست دشمن میں امتیاز کرو

غیر اپنے کبھی نہیں ہوتے
کیوں انہیں آشنائے راز کرو

جب کسی دل میں گھر بنانا ہو
پہلے نظروں سے ساز باز کرو

تم کہاں وہ نگۂ ناز کہاں
اپنی خوش فہمیوں پہ ناز کرو

سرفرازی اسے نہیں کہتے
سرفرازوں کو سرفراز کرو

کیا تقاضے ہیں وقت کے سرشارؔ
سوز کو آشنائے ساز کرو