ہر خوشی مقبروں پہ لکھ دی ہے
اور اداسی گھروں پہ لکھ دی ہے
ایک آیت سی دست قدرت نے
تتلیوں کے پروں پہ لکھ دی ہے
جالیوں کو تراش کر کس نے
ہر دعا پتھروں پہ لکھ دی ہے
لوگ یوں سر چھپائے پھرتے ہیں
جیسے قیمت سروں پہ لکھ دی ہے
ہر ورق پر ہیں کتنے رنگ قمرؔ
ہر غزل منظروں پہ لکھ دی ہے

غزل
ہر خوشی مقبروں پہ لکھ دی ہے
قمر اقبال