EN हिंदी
ہر خوف ہر خطر سے گزرنا بھی سیکھئے | شیح شیری
har KHauf har KHatar se guzarna bhi sikhiye

غزل

ہر خوف ہر خطر سے گزرنا بھی سیکھئے

ابو محمد سحر

;

ہر خوف ہر خطر سے گزرنا بھی سیکھئے
جینا ہے گر عزیز تو مرنا بھی سیکھئے

یہ کیا کہ ڈوب کر ہی ملے ساحل نجات
سیلاب خوں سے پار اترنا بھی سیکھئے

ایسا نہ ہو کہ خواب ہی رہ جائے زندگی
جو دل میں ٹھانئے اسے کرنا بھی سیکھئے

بگڑے بہت کشاکش ناز و نیاز میں
اب اس کی انجمن میں سنورنا بھی سیکھئے

ہوتا ہے پستیوں کے مقدر میں بھی عروج
اک موج تہ نشیں کا ابھرنا بھی سیکھئے

اوروں کی سرد مہری کا شکوہ بجا سحرؔ
خود اپنے دل کو پیار سے بھرنا بھی سیکھئے