ہر خطا اس کی ہمیشہ درگزر کرتی ہوئی
فاصلوں کو دل کی چاہت مختصر کرتی ہوئی
ذہن و دل کی روشنی کو تیز تر کرتی ہوئی
گفتگو سیدھے تری دل پر اثر کرتی ہوئی
میرے جذبوں کے فسوں میں قید وہ ہوتا ہوا
اس کے لہجے کی کھنک مجھ پر اثر کرتی ہوئی
زندگی کی تیز گامی اور دولت کی ہوس
آنے والے کل سے ہم کو بے خبر کرتی ہوئی
حوصلہ دیتا ہوا سا مجھ کو میرا اعتماد
بے یقینی دل میں پیدا ڈر پہ ڈر کرتی ہوئی
بھولا پن اور سادگی پر اس کی میں مٹتا ہوا
ایک صورت موہنی سی دل میں گھر کرتی ہوئی
کس کو یہ معلوم اے نایابؔ نسبت کس کی ہے
میرے ہر نقش قدم کو معتبر کرتی ہوئی
غزل
ہر خطا اس کی ہمیشہ درگزر کرتی ہوئی
جہانگیر نایاب