ہر کاسۂ دل کیف سے سرشار بہت ہے
مائل بہ کرم کوئی طرح دار بہت ہے
کب سطوت اسباب کی ہے دل کو تمنا
ہم اہل طریقت کو تو پندار بہت ہے
یہ عہد عبارت نہیں شمشیر و سناں سے
شوریدہ سرو! جرأت گفتار بہت ہے
کرتا ہے لہو دل کو ہر اک حرف تسلی
کہنے کو تو یوں قربت غم خوار بہت ہے
ہر چند رسائی میں نہیں فصل بہاراں
ارباب جنوں دامن دل دار بہت ہے
ہونٹوں سے ہو مانوس اگر حق تو جنوں کو
اک نعرۂ منصور سر دار بہت ہے
غزل
ہر کاسۂ دل کیف سے سرشار بہت ہے
عرفانہ عزیز