EN हिंदी
ہر جلوہ پہ نگاہ کیے جا رہا ہوں میں | شیح شیری
har jalwe pe nigah kiye ja raha hun main

غزل

ہر جلوہ پہ نگاہ کیے جا رہا ہوں میں

آنند نرائن ملا

;

ہر جلوہ پہ نگاہ کیے جا رہا ہوں میں
آنکھوں کو خضر راہ کئے جا رہا ہوں میں

مٹنے نہ پائے تازگی لذت گناہ
توبہ بھی گاہ گاہ کیے جا رہا ہوں میں

کیسی یہ زندگی ہے کہ پھر بھی ہے شوق زیست
گوہر نفس اک آہ کیے جا رہا ہوں میں

اشکوں کی مشعلوں کو فروزاں کیے ہوئے
طے التجا کی راہ کیے جا رہا ہوں میں

خود جس کے سامنے سپر انداختہ ہے حسن
ایسی بھی اک نگاہ کیے جا رہا ہوں میں

شاید کبھی وہ بھول کے رکھیں ادھر قدم
آنکھوں کو فرش راہ کیے جا رہا ہوں میں

بڑھتی ہی جا رہی ہیں تری کم نگاہیاں
کیا دل میں تیرے راہ کیے جا رہا ہوں میں

ظلمات دیر و کعبہ میں کچھ روشنی سی ہے
شاید کوئی گناہ کیے جا رہا ہوں میں

ملاؔ ہر ایک تازہ مصیبت پہ ہنس کے اور
کج گوشہ کلاہ کیے جا رہا ہوں میں