EN हिंदी
ہر جگہ بندش آداب کی پروا نہ کریں | شیح شیری
har jagah bandish-e-adab ki parwa na karen

غزل

ہر جگہ بندش آداب کی پروا نہ کریں

خلیل الرحمٰن راز

;

ہر جگہ بندش آداب کی پروا نہ کریں
محرم راز سے بہتر ہے کہ پردا نہ کریں

عشق کی کہنہ روایات کو رسوا نہ کریں
بات تو یہ ہے سر دار بھی لب وا نہ کریں

موت بھی سامنے آ جائے تو پروا نہ کریں
جاں بکف دل کو مثال دل پروانہ کریں

دل پہ حرص و حسد بادیہ پیما نہ کریں
اس سے بہتر ہے کہ شغل مے و پیمانہ کریں

پرسش غم سے مرے غم کو دوبالا نہ کریں
یہ کرم آج سے آئندہ دوبارا نہ کریں

اٹھنے لگتا ہے تمہیں دیکھ کے موہوم سا درد
آج سے آپ مرے سامنے آیا نہ کریں

درد اٹھتا ہے اگر چارہ گروں کو ڈھونڈیں
درد الفت ہے تو پھر فکر مداوا نہ کریں

وقت کے ہاتھ میں ہے کھوٹے کھرے کی تصدیق
آپ اچھے ہیں تو اچھائی کا دعویٰ نہ کریں

لگ نہ جائے رخ گل رنگ کو اپنی ہی نظر
اپنی صورت کبھی آئینے میں دیکھا نہ کریں

چھیڑ دیتی ہے یہ آواز حزیں روح کے تار
دم رخصت لب گل ریز کو گویا نہ کریں

دل و ایماں تو نہیں ہاں مگر اے اہل ستم
جان حاضر ہے جو منظور یہ نذرانہ کریں

راز سر بستہ ہے دل اور یہ بہتر ہے کہ رازؔ
پردہ ہم چہرۂ ہستی سے اٹھایا نہ کریں