EN हिंदी
ہر جانب ویرانی بھی ہو سکتی ہے | شیح شیری
har jaanib virani bhi ho sakti hai

غزل

ہر جانب ویرانی بھی ہو سکتی ہے

نوشی گیلانی

;

ہر جانب ویرانی بھی ہو سکتی ہے
صبح کی رنگت دھانی بھی ہو سکتی ہے

جب کشتی ڈالی تھی کس نے سوچا تھا
دریا میں طغیانی بھی ہو سکتی ہے

نئے سفر کے نئے عذاب اور نئے گلاب
صورت حال پرانی بھی ہو سکتی ہے

ہر پل جو دل کو دہلائے رکھتی ہے
کچھ بھی نہیں حیرانی بھی ہو سکتی ہے

سفر ارادہ کر تو لیا پر رستوں میں
رات کوئی طوفانی بھی ہو سکتی ہے

اس کو میرے نام سے نسبت ہے لیکن
بات یہ آنی جانی بھی ہو سکتی ہے