ہر جانب سے آئے پتھر
اشک آنکھوں میں لائے پتھر
اذن ملا جب گویائی کا
ہم بولے اور کھائے پتھر
جب بھی کوئے یار کو نکلے
استقبال کو آئے پتھر
کیسی یہ تقریب ہے یارو
تحفے میں تم لائے پتھر
جب لوگوں سے میں اکتایا
اپنے میت بنائے پتھر
توڑ بھی دیتا ہے یہ ناقدؔ
لیکن ٹوٹ بھی جائے پتھر
غزل
ہر جانب سے آئے پتھر
شبیر ناقد