ہر انساں اپنے ہونے کی سزا ہے
بھرے بازار میں تنہا کھڑا ہے
نئے دربانوں کے پہرے بٹھاؤ
ہجوم درد بڑھتا جا رہا ہے
رہے ہم ہی جو ہر پتھر کی زد میں
ہماری سر بلندی کی خطا ہے
مہکتے گیسوؤں کی رات گزری
سوا نیزے پہ اب سورج کھڑا ہے
مرے خوابوں کی چکنی سیڑھیوں پر
نہ جانے کس کا بت ٹوٹا پڑا ہے
وہ شعلے ہوں لہو ہو حادثے ہوں
مری ہی زندگی پر تبصرہ ہے
تری زلفیں تو ہیں بدنام یونہی
مجھے دن کے اجالوں نے ڈسا ہے
چلو چپکے سے کچھ بت اور رکھ آئیں
در کعبہ ابھی شاید کھلا ہے
اتر کر تو فصیل شب سے دیکھو
سحر نے خودکشی کر لی سنا ہے
ابھی طاق تصور پر نعیمیؔ
چراغ لذت شب جل رہا ہے
غزل
ہر انساں اپنے ہونے کی سزا ہے
عبد الحفیظ نعیمی