ہر انقلاب کی سرخی انہیں کے افسانے
حیات دہر کا حاصل ہیں چند دیوانے
خدائے ہر دوجہاں خوب ہے تری تقسیم
زمیں پہ دیر و حرم اور فلک پہ میخانے
ہماری جا بھی کہیں ہے خداے دیر و حرم
حرم میں غیر ہیں اور بت کدہ میں بیگانے
نہ پوچھ دور حقیقت کی سختیوں کو نہ پوچھ
ترس گئے لب افسانہ گو کو افسانے
یہ جبر زیست محبت پہ کب تلک آخر
کہ دل سلام کریں اور نظر نہ پہچانے
الگ الگ سے افق پر ہیں چھوٹے چھوٹے غبار
یہ کارواں کو مرے کیا ہوا خدا جانے
نظام میکدہ ساقی چلے گا یوں کب تک
چھلک رہے ہیں سبو اور تہی ہیں پیمانے

غزل
ہر انقلاب کی سرخی انہیں کے افسانے
آنند نرائن ملا