ہر اک یقین کو ہم نے گماں بنا دیا ہے
تھے جس زمیں پہ اسے آسماں بنا دیا ہے
ہم ایسے خانہ خرابوں سے اور کیا بنتا
کسی سے سلسلۂ ربط جاں بنا دیا ہے
ہمارے شعر ہمارے خیال کچھ یوں ہیں
خلا میں جیسے کسی نے مکاں بنا دیا ہے
محبتوں کے امینوں کی ہیں وہ آوازیں
کہ جن کو خلق نے شور سگاں بنا دیا ہے
زمیں تو پوری طرح ہم بھی دیکھ سکتے ہیں
فلک کو اس نے مگر بے کراں بنا دیا ہے
غزل
ہر اک یقین کو ہم نے گماں بنا دیا ہے
اسعد بدایونی