EN हिंदी
ہر اک ٹہنی پہ گل مرجھا ہوا ہے | شیح شیری
har ek Tahni pe gul murjha hua hai

غزل

ہر اک ٹہنی پہ گل مرجھا ہوا ہے

صابر شاہ صابر

;

ہر اک ٹہنی پہ گل مرجھا ہوا ہے
بھرے گھر میں کوئی تنہا ہوا ہے

وجود اس کا زمانہ مانتا ہے
کہ دریا جب تلک بہتا ہوا ہے

مجھے خیرات میں لوٹا رہے ہو
مرے پرکھوں سے جو چھینا ہوا ہے

ہمیں میلوں لیے چلتا ہے تاہم
بظاہر راستہ ٹھہرا ہوا ہے

مرے مولیٰ سمیٹے کون کس کو
یہاں ہر آدمی بکھرا ہوا ہے