ہر اک ٹہنی پہ گل مرجھا ہوا ہے
بھرے گھر میں کوئی تنہا ہوا ہے
وجود اس کا زمانہ مانتا ہے
کہ دریا جب تلک بہتا ہوا ہے
مجھے خیرات میں لوٹا رہے ہو
مرے پرکھوں سے جو چھینا ہوا ہے
ہمیں میلوں لیے چلتا ہے تاہم
بظاہر راستہ ٹھہرا ہوا ہے
مرے مولیٰ سمیٹے کون کس کو
یہاں ہر آدمی بکھرا ہوا ہے

غزل
ہر اک ٹہنی پہ گل مرجھا ہوا ہے
صابر شاہ صابر