ہر اک صورت میں تجھ کو جانتے ہیں
ہم اس بہروپ کو پہچانتے ہیں
ہے قادر تو خدا لیکن بتاں بھی
وہ کر چکتے ہیں جو کچھ ٹھانتے ہیں
تو ناصح مان یا مت مان لیکن
تری باتیں کوئی ہم جانتے ہیں
گئے گوہر کے تاجر جس طرف سے
ہم ان رستوں کی ماٹی چھانتے ہیں
نہ سنبھلا آسماں سے عشق کا بوجھ
ہمیں ہیں جو یہ مگدر بھانتے ہیں
مرید خاندان عشق جو ہے
ہم اپنا پیر اسے گردانتے ہیں
کلی ماریں ہیں دو رکعت پہ زاہد
نہ ڈنڈ پیلیں نہ مگدر بھانتے ہیں
بہت جاگے ہم اس محفل میں قائمؔ
کوئی دم اب تو چادر تانتے ہیں
غزل
ہر اک صورت میں تجھ کو جانتے ہیں
قائم چاندپوری