ہر اک شکست کو اے کاش اس طرح میں سہوں
فزوں ہو اور بھی دل میں تری طلب کا فسوں
تمہارے جسم کی جنت تو مل گئی ہے مگر
میں اپنی روح کی دوزخ کا کیا علاج کروں
ہنسا ہوں آج تو مجبور تھا کہ تیرے حضور
مجھے یہ ڈر تھا اگر چپ رہا تو رو نہ پڑوں
تمام عمر نہ بھٹکے کہیں تو میری طرح
ہوں کشمکش میں جو کہنا ہے وہ کہوں نہ کہوں
نہ اب پکار مجھے مدتوں کی دوری سے
ترے قریب نہیں ہوں کہ تیری بات سنوں
تری تلاش کو نکلوں گا اس سے پہلے مگر
میں تیری یاد کے صحرا میں خود کو ڈھونڈ تو لوں
وہ دیکھ لے تو نہ روئے بنا رہے آزادؔ
میں سوچتا ہوں کہ اک بار خود پہ یوں بھی ہنسوں
غزل
ہر اک شکست کو اے کاش اس طرح میں سہوں
آزاد گلاٹی