EN हिंदी
ہر اک قدم پہ جو پرسان حال چاہیے تھا | شیح شیری
har ek qadam pe jo pursan-e-haal chahiye tha

غزل

ہر اک قدم پہ جو پرسان حال چاہیے تھا

نصرت مہدی

;

ہر اک قدم پہ جو پرسان حال چاہیے تھا
تو پھر اسے بھی ہمارا خیال چاہیے تھا

وہ رشتے ناطوں کو رسماً نبھانے آیا تھا
ہمیں دلوں کا تعلق بحال چاہیے تھا

بلندیوں پہ توازن نہ رہ سکا قائم
یہاں عروج کو تھوڑا زوال چاہیے تھا

غزل تو آپ سے لے لیتی پڑھ بھی دیتی مگر
مجھے ادب میں بھی رزق حلال چاہیے تھا

کمال پر ہے یہ احساس ان دنوں نصرتؔ
کوئی ہمیں بھی یہاں با کمال چاہیے تھا