EN हिंदी
ہر اک منظر بدلتا جا رہا ہے | شیح شیری
har ek manzar badalta ja raha hai

غزل

ہر اک منظر بدلتا جا رہا ہے

رئیس صدیقی

;

ہر اک منظر بدلتا جا رہا ہے
یہ لمحہ بھی گزرتا جا رہا ہے

ترا احساس اک مدت سے میری
رگ و پے میں اترتا جا رہا ہے

شکایت زندگی سے کرتے کرتے
وہ اک اک لمحہ مرتا جا رہا ہے

پڑا ہے جب سے تیرا عکس اس میں
یہ آئینہ سنورتا جا رہا ہے

ورق یادوں کے کس نے کھول ڈالے
مرا کمرہ مہکتا جا رہا ہے

یہ دنیا تو سمٹتی جا رہی ہے
مگر انساں بکھرتا جا رہا ہے