EN हिंदी
ہر اک محاذ کو تنہا سنبھالے بیٹھے ہیں | شیح شیری
har ek mahaz ko tanha sambhaale baiThe hain

غزل

ہر اک محاذ کو تنہا سنبھالے بیٹھے ہیں

نور العین قیصر قاسمی

;

ہر اک محاذ کو تنہا سنبھالے بیٹھے ہیں
ہم ایک دل میں کئی روگ پالے بیٹھے ہیں

ابھی نہ زور دکھائے یہ کہہ دو آندھی سے
ابھی ہم اپنے ارادوں کو ٹالے بیٹھے ہیں

ستم گروں نے بہاروں پہ کر لیا قبضہ
چمن کو خون جگر دینے والے بیٹھے ہیں

بتائیں کیا کہ ہمارے ہی رہنما اب تو
ہماری راہ میں خنجر نکالے بیٹھے ہیں

زمیں پہ اپنا بسیرا تو ہے مگر قیصرؔ
نگاہیں چاند ستاروں پہ ڈالے بیٹھے ہیں