ہر اک محاذ کو تنہا سنبھالے بیٹھے ہیں
ہم ایک دل میں کئی روگ پالے بیٹھے ہیں
ابھی نہ زور دکھائے یہ کہہ دو آندھی سے
ابھی ہم اپنے ارادوں کو ٹالے بیٹھے ہیں
ستم گروں نے بہاروں پہ کر لیا قبضہ
چمن کو خون جگر دینے والے بیٹھے ہیں
بتائیں کیا کہ ہمارے ہی رہنما اب تو
ہماری راہ میں خنجر نکالے بیٹھے ہیں
زمیں پہ اپنا بسیرا تو ہے مگر قیصرؔ
نگاہیں چاند ستاروں پہ ڈالے بیٹھے ہیں

غزل
ہر اک محاذ کو تنہا سنبھالے بیٹھے ہیں
نور العین قیصر قاسمی