EN हिंदी
ہر اک لمحہ ہمیں ہم سے جدا کرتی ہوئی سی | شیح شیری
har ek lamha hamein humse juda karti hui si

غزل

ہر اک لمحہ ہمیں ہم سے جدا کرتی ہوئی سی

سلطان اختر

;

ہر اک لمحہ ہمیں ہم سے جدا کرتی ہوئی سی
ہمارے بیچ دیوار انا بنتی ہوئی سی

لرزتی کانپتی مثل حیا سمٹی ہوئی سی
مری جانب بڑھی اس کی صدا سہمی ہوئی سی

وہی منظر لرزتا ہے نگاہوں میں ابھی تک
دریچے ہاتھ پھیلائے ہوا روٹھی ہوئی سی

ترے قدموں کی آہٹ رہ گزر در رہ گزر روشن
تری آمد کی خوشبو جا بجا بکھری ہوئی سی

سبھی مانوس چہرے اجنبی سے لگ رہے ہیں
ہمیں جینے نہیں دے گی فضا بدلی ہوئی سی

نگاہوں کے افق حیرانیوں کے ابر میں گم
کوئی شے آئینے میں رونما ہوتی ہوئی سی

نہ جانے کس تباہی کی طرف لے جائے گی اب
ہماری زندگی بے ساختہ بڑھتی ہوئی سی

مجھے مجھ سے الگ کرنے پہ آمادہ ہے اخترؔ
مری پہچان مجھ سے آشنا ہوتی ہوئی سی