EN हिंदी
ہر اک کے دکھ پہ جو اہل قلم تڑپتا تھا | شیح شیری
har ek ke dukh pe jo ahl-e-qalam taDapta tha

غزل

ہر اک کے دکھ پہ جو اہل قلم تڑپتا تھا

طفل دارا

;

ہر اک کے دکھ پہ جو اہل قلم تڑپتا تھا
خود اس کا اپنا ہر اک درد اس پہ ہنستا تھا

میں آج کیوں تہ داماں بھی جل نہیں سکتا
مرا ہی شعلہ ہواؤں پہ کل لپکتا تھا

زمانے بھر کی اداؤں کو سہہ رہا ہوں آج
کبھی میں اپنی اداؤں سے بھی بگڑتا تھا

وہ میری شکل سے بیزار ہو رہا ہے آج
جو شخص کل مری آواز کو ترستا تھا

تمام شب جسے بخشے تھے ریشمی گیسو
سحر ہوئی تو وہ سر دار پر لٹکتا تھا

مری گرفت میں کون و مکاں کی باگ تھی جب
مرا وجود مری روح سے لرزتا تھا

ہر اک سے ڈرتا ہوں میں آج اک خدا کے سوا
کبھی وہ دن تھے کہ بس اک خدا سے ڈرتا تھا

لو آج تو نے بھی دیوانہ کہہ دیا مجھ کو
ترے ہی دل میں تو میرا سخن اترتا تھا

یہ کیا کیا مجھے میری نظر سے چھین لیا
اسی لہو سے چراغ وجود جلتا تھا

کسی ستم میں بھی اک رونق تعلق ہے
وگرنہ یوں تو میں تنہائیوں میں ڈھلتا تھا

ترا سنبھلنا بھی گرنا ہے ان دنوں داراؔ
کہاں وہ دن کہ تو گرنے میں بھی سنبھلتا تھا