EN हिंदी
ہر اک امکان تک پسپائی ہے اپنی | شیح شیری
har ek imkan tak paspai hai apni

غزل

ہر اک امکان تک پسپائی ہے اپنی

چندر پرکاش شاد

;

ہر اک امکان تک پسپائی ہے اپنی
اور اس کے بعد صف آرائی ہے اپنی

سزا سمجھو مجھے اس کھوکھلے پن کی
صدا ہر سمت سے لوٹ آئی ہے اپنی

جماعت بے جماعت ایک سا ہوں میں
کہ صدہا شکل کی تنہائی ہے اپنی

اب ان سیرابیوں کا سلسلہ کب تک
خبر تو مدتوں تک پائی ہے اپنی

پھر اپنے آپ میں گرنے لگا ہوں میں
وہی لغزش وہی گہرائی ہے اپنی

سفر بے لذتی کی جستجو کا ہے
بہ ہر‌ منظر زیاں پیمائی ہے اپنی