ہر اک امکان تک پسپائی ہے اپنی
اور اس کے بعد صف آرائی ہے اپنی
سزا سمجھو مجھے اس کھوکھلے پن کی
صدا ہر سمت سے لوٹ آئی ہے اپنی
جماعت بے جماعت ایک سا ہوں میں
کہ صدہا شکل کی تنہائی ہے اپنی
اب ان سیرابیوں کا سلسلہ کب تک
خبر تو مدتوں تک پائی ہے اپنی
پھر اپنے آپ میں گرنے لگا ہوں میں
وہی لغزش وہی گہرائی ہے اپنی
سفر بے لذتی کی جستجو کا ہے
بہ ہر منظر زیاں پیمائی ہے اپنی
غزل
ہر اک امکان تک پسپائی ہے اپنی
چندر پرکاش شاد