ہر گنبد بے در میں بھی اک در ہے کہ تو ہے
پھر مجھ میں کوئی اور نواگر ہے کہ تو ہے
اک اور ہی عالم ہے ورائے خس و خاشاک
اک اور ہی منظر پس منظر ہے کہ تو ہے
تا حد نظر ایک ندی ہے کہ ہوں میں بھی
تا حد خیال ایک سمندر ہے کہ تو ہے
پیوست ہیں مٹی میں مرے پاؤں کہ میں ہوں
افلاک کے سینے پہ مرا سر ہے کہ تو ہے
وحشت اسے کہیے نہ تحیر اسے کہیے
میں بھول چلا تھا مجھے ازبر ہے کہ تو ہے
دیکھوں تو ترا ہونا سہارا بھی ہے مجھ کو
سوچوں تو مجھے ایک یہی ڈر ہے کہ تو ہے
غزل
ہر گنبد بے در میں بھی اک در ہے کہ تو ہے
منیر سیفی