ہر گل اس باغ کا نظروں میں دہاں ہے گویا
صورت غنچہ جو دیکھوں تو زباں ہے گویا
تاک کی طرح سبھی مست پڑے اینڈیں ہیں
مے کدہ اب گرو بادہ کشاں ہے گویا
چشم ہے ترک نگہ نیزہ و مژگاں ترکش
زلف پر پیچ کا ہر حلقہ کماں ہے گویا
جا بھڑاتا ہے ہمیشہ مجھے خوں خواروں سے
دل بغل بیچ مرا دشمن جاں ہے گویا
حاتمؔ اب اس کی سبھی منہ کی طرف دیکھے ہیں
شیشہ مجلس میں یہاں پیر مغاں ہے گویا

غزل
ہر گل اس باغ کا نظروں میں دہاں ہے گویا
شیخ ظہور الدین حاتم