ہر گل سے ہر خار سے الجھا رہتا ہے
دل ہے اپنے یار سے الجھا رہتا ہے
پھول خفا رہتے ہیں اپنی شاخوں سے
در اپنی دیوار سے الجھا رہتا ہے
میری جوانی کا ساتھی مرا آئینہ
چاندی کے ہر تار سے الجھا رہتا ہے
جانے میرا شاعر بیٹا کیوں اکثر
دادا کی تلوار سے الجھا رہتا ہے
لوگ تو آخر لوگ ہیں ان سے کیا شکوہ
عیسیٰ کیوں بیمار سے الجھا رہتا ہے
مورت بنتی ٹوٹتی بنتی رہتی ہے
فن اپنے فن کار سے الجھا رہتا ہے

غزل
ہر گل سے ہر خار سے الجھا رہتا ہے
سعید احمد اختر