EN हिंदी
ہر گل سے ہر خار سے الجھا رہتا ہے | شیح شیری
har gul se har Khaar se uljha rahta hai

غزل

ہر گل سے ہر خار سے الجھا رہتا ہے

سعید احمد اختر

;

ہر گل سے ہر خار سے الجھا رہتا ہے
دل ہے اپنے یار سے الجھا رہتا ہے

پھول خفا رہتے ہیں اپنی شاخوں سے
در اپنی دیوار سے الجھا رہتا ہے

میری جوانی کا ساتھی مرا آئینہ
چاندی کے ہر تار سے الجھا رہتا ہے

جانے میرا شاعر بیٹا کیوں اکثر
دادا کی تلوار سے الجھا رہتا ہے

لوگ تو آخر لوگ ہیں ان سے کیا شکوہ
عیسیٰ کیوں بیمار سے الجھا رہتا ہے

مورت بنتی ٹوٹتی بنتی رہتی ہے
فن اپنے فن کار سے الجھا رہتا ہے