ہر گل تازہ ہمارے ہاتھ پر بیعت کرے
اس کی زلفوں تک پہنچنے کے لیے منت کرے
دل بچائے یا سراہے آتش رخسار کو
جس کا گھر جلتا ہو وہ شعلوں کی کیا مدحت کرے
آم کے پھولوں کو خود ہی جھاڑ دے اور اس کے بعد
بے ثمر شاخوں سے آوارہ ہوا حجت کرے
شہر والوں کو بھی حاجت ہے اناجوں کی مگر
خوش لباسی موسم برسات پر لعنت کرے
یوں بہانے سے چھپا لوں اپنے اشکوں کو مگر
آنکھ کی سرخی دل پر درد کی غیبت کرے
خون کے دو چار قطرے دل میں ہیں باقی ظہیرؔ
دشنۂ مژگاں سے کہہ دو اک ذرا زحمت کرے
غزل
ہر گل تازہ ہمارے ہاتھ پر بیعت کرے
ظہیر صدیقی