EN हिंदी
ہر گھڑی رہتا ہے اب خدشا مجھے | شیح شیری
har ghaDi rahta hai ab KHadsha mujhe

غزل

ہر گھڑی رہتا ہے اب خدشا مجھے

اجمل اجملی

;

ہر گھڑی رہتا ہے اب خدشا مجھے
پی نہ جائے وقت کا دریا مجھے

گو حقیقت تھا مگر اے زندگی
خواب سا تو نے سدا دیکھا مجھے

جب بھی ملتا ہوں وہی چہرہ لیے
بد دعا دیتا ہے آئینا مجھے

چھوڑ آیا ہوں سلگتی ریت میں
جانے کیا کہتا ہو نقش پا مجھے

اس کے دل میں خود وفا ناپید تھی
دوستی کی بھیک کیا دیتا مجھے

ڈوبتی بجھتی ہوئی آواز ہوں
ساتھ والو غور سے سننا مجھے