EN हिंदी
ہر گھڑی کا ساتھ دکھ دیتا ہے جان من مجھے | شیح شیری
har ghaDi ka sath dukh deta hai jaan-e-man mujhe

غزل

ہر گھڑی کا ساتھ دکھ دیتا ہے جان من مجھے

اقبال ساجد

;

ہر گھڑی کا ساتھ دکھ دیتا ہے جان من مجھے
ہر کوئی کہنے لگا تنہائی کا دشمن مجھے

دن کو کرنیں رات کو جگنو پکڑنے کا ہے شوق
جانے کس منزل میں لے جائے گا پاگل پن مجھے

سادہ کاغذ رکھ کے آیا ہوں نمائش گاہ میں
دیکھ کر ہوتی تھی ہر تصویر کو الجھن مجھے

ناچتا تھا پاؤں میں لمحوں کے گھنگرو باندھ کر
دے گیا دھوکا سمٹ کر وقت کا آنگن مجھے

نیکیوں کے پھل نہیں لگتے بدی کے پیڑ پر
اس نے واپس کر دیا ہے پھر تہی دامن مجھے

دوستو سن لی خدا نے کل مری پہلی دعا
شرم سے آخر جھکانی پڑ گئی گردن مجھے

کیا ملا تجھ کو بتا اندھے سے لاٹھی چھین کر
کر دیا کیوں آس سے محروم جان من مجھے

سرد ہو سکتی نہیں ساجدؔ کبھی سینے کی آگ
دل جلانے کو ملا ہے یاد کا ایندھن مجھے