ہر گھڑی اک یہی احساس زیاں رہتا ہے
آگ روشن تھی جہاں صرف دھواں رہتا ہے
ختم ہوتا ہی نہیں دشت کا اب سناٹا
کوئی موسم ہو یہاں ایک سماں رہتا ہے
آ گئی راس مرے دل کی اداسی شاید
اتنی مدت بھی کہیں دور خزاں رہتا ہے
پھول کھلتے ہیں تو مرجھائے ہوئے لگتے ہیں
اک عجب خوف سر شاخ گماں رہتا ہے
ساز کے تار ہیں ٹوٹے ہوئے مطرب چپ ہیں
اب فضاؤں میں فقط شور سگاں رہتا ہے
راستہ چلتے ہوئے لوگ ٹھٹھک جاتے ہیں
ہر قدم جیسے تہہ سنگ گراں رہتا ہے
میں بھی رک جاؤں مگر رک نہیں پاتا عالمؔ
ایک دریا سا سدا مجھ میں رواں رہتا ہے
غزل
ہر گھڑی اک یہی احساس زیاں رہتا ہے
عالم خورشید