ہر گھڑی ہر لمحہ اٹھتے پتھروں کے ساتھ میں
ٹوٹے ٹوٹے کتنے شیشوں کے گھروں کے ساتھ میں
آندھیوں کے دوش پر شمعیں جلاتا روز و شب
قہر میں بپھری ہوا کے لشکروں کے ساتھ میں
سبزہ زاروں کی تمنا مجھ میں سرگرم سفر سفر
چلچلاتی دھوپ کے نامہ بروں کے ساتھ میں
رفتہ رفتہ شام کے نا مہرباں سیلاب میں
ڈوبتا سا اجلے اجلے سے پروں کے ساتھ میں
میں بھٹکتی امتوں کا ایک درد مشترک
ہر زمانے میں رہا پیغمبروں کے ساتھ میں
دائرہ در دائرہ چاروں طرف بکھرا ہوا
ایک سمندر میں صدا کے کنکروں کے ساتھ میں
تو نہ جانے کن اندھیروں میں چھپی بیٹھی ہوئی
راستہ چنتا ہوا کتنے ڈروں کے ساتھ میں

غزل
ہر گھڑی ہر لمحہ اٹھتے پتھروں کے ساتھ میں
نعمان امام