ہر غم غم تازہ ہے یہ شاداب ہے سینہ
ایسا بھی تو اس دور میں نایاب ہے سینہ
ہنگام خمیدن بھی یہ سر خم نہیں ہوتا
یوں کہنے کو گنجینۂ آداب ہے سینہ
جیسے کہ نہ آئی ہے نہ آئے گی کوئی اور
ہر صبح کو اس طور سے بیتاب ہے سینہ
باطن پہ نظر کیجے تو اک بحر ہے ذخار
ظاہر پہ نظر کیجے تو پایاب ہے سینہ
کب دشت و جبل کوہ و دمن راہ میں آئیں
ہو سوز جو سینے میں تو سیلاب ہے سینہ
ظاہر میں تو جو کچھ ہے وہ اسباب جہاں ہے
باطن میں یہی چشمۂ اسباب ہے سینہ
آنکھیں تو برستی ہیں برستی ہی رہیں گی
کیوں ڈوب نہ جائیں کہ تہہ آب ہے سینہ
جس باب میں آثار غزالان عجم ہیں
توریت کا قرآن کا وہ باب ہے سینہ
ہر دم مرے ہونٹوں سے چھلکتی ہے گلابی
بیتاب سی اک موج مے ناب ہے سینہ
بستی میں عجب دولت بیدار ہیں آنکھیں
ویرانے میں اک دولت نایاب ہے سینہ
بیداری میں سویا ہوا قطرے میں تلاطم
اور خواب میں جاگا ہوا سیلاب ہے سینہ
ہے رنج کا عالم بھی کوئی عیش کا عالم
ہر لحظہ عجب عالم صد خواب ہے سینہ
عالم ہے اگر راز تو یہ شیشۂ جم ہے
عالم ہے اگر ساز تو مضراب ہے سینہ
اللہ غنی کہیے کہ اللہ غنی ہے
وہ تاب عطا کی ہے جہاں تاب ہے سینہ

غزل
ہر غم غم تازہ ہے یہ شاداب ہے سینہ
خورشید الاسلام