EN हिंदी
ہر گام حادثہ ہے ٹھہر جائیے جناب | شیح شیری
har gam hadsa hai Thahar jaiye janab

غزل

ہر گام حادثہ ہے ٹھہر جائیے جناب

امیر قزلباش

;

ہر گام حادثہ ہے ٹھہر جائیے جناب
رستہ اگر ہو یاد تو گھر جائیے جناب

زندہ حقیقتوں کے تلاطم ہیں سامنے
خوابوں کی کشتیوں سے اتر جائیے جناب

انکار کی صلیب ہوں سچائیوں کا زہر
مجھ سے ملے بغیر گزر جائیے جناب

دن کا سفر تو کٹ گیا سورج کے ساتھ ساتھ
اب شب کی انجمن میں بکھر جائیے جناب

کوئی چرا کے لے گیا صدیوں کا اعتقاد
منبر کی سیڑھیوں سے اتر جائیے جناب