ہر گام حادثہ ہے ٹھہر جائیے جناب
رستہ اگر ہو یاد تو گھر جائیے جناب
زندہ حقیقتوں کے تلاطم ہیں سامنے
خوابوں کی کشتیوں سے اتر جائیے جناب
انکار کی صلیب ہوں سچائیوں کا زہر
مجھ سے ملے بغیر گزر جائیے جناب
دن کا سفر تو کٹ گیا سورج کے ساتھ ساتھ
اب شب کی انجمن میں بکھر جائیے جناب
کوئی چرا کے لے گیا صدیوں کا اعتقاد
منبر کی سیڑھیوں سے اتر جائیے جناب
غزل
ہر گام حادثہ ہے ٹھہر جائیے جناب
امیر قزلباش