ہر ایک ذرہ بار امانت سے ڈر گیا
اک میں ہی تھا کہ تیرے مقابل ٹھہر گیا
ہر چیز جل گئی تھی بہ جز چشم انتظار
اوروں کے گھر بجھا کے جو میں اپنے گھر گیا
اس دور انتشار کا یہ بھی ہے حادثہ
تہذیب زندہ رہ گئی انسان مر گیا
وہ بھی کبھی تھا اپنے قبیلے کا آدمی
کل تیری انجمن سے جو با چشم تر گیا
تم مسکرا کے ایک طرف ہو گئے مگر
الزام سارا زلف پریشاں کے سر گیا
اب تک بھی جس کو پانے کی نیرؔ ہے آرزو
وہ لمحۂ عزیز نہ جانے کدھر گیا

غزل
ہر ایک ذرہ بار امانت سے ڈر گیا
صلاح الدین نیر