ہر ایک زخم کی شدت کو کم کیا جاتا
نمک سے کام نہ مرہم کا گر لیا جاتا
دلوں کا بوجھ دلوں سے اتارنے کے لیے
یہ لازمی تھا گریبان کو سیا جاتا
زمانہ پاؤں کی ٹھوکر میں آ بھی سکتا تھا
سروں کو اپنے اٹھا کر اگر جیا جاتا
کمی نہ آتی ترے احترام میں شاہا
کسی غریب کا حق جو اسے دیا جاتا
ہماری موت بھی ہوتی بقا ہماری نبیلؔ
کہ پیالہ زہر کا ہاتھوں سے گر پیا جاتا
غزل
ہر ایک زخم کی شدت کو کم کیا جاتا
نبیل احمد نبیل